مجھ کو بہ جان و دل قبول نغمے کو نغمہ ہی سمجھ
ساز پہ بیتتی ہے کیا، یہ بھی کبھی کبھی سمجھ
عشق ہے تشنگی کا نام، توڑ دے گر مِلے بھی جام
شدتِ تشنگی نہ دیکھ، لذتِ تشنگی سمجھ
عقل کے کاروبار میں دل کو بھی رکھ شریک کار
دل کے معاملات میں عقل کو اجنبی سمجھ