یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے
تم سیکھ کر یہ خوئے ستم گر کہاں سے آئے
جب تھا محافظوں کی نگہبانیوں میں شہر
قاتل فصیلِ شہر کے اندر کہاں سے آئے
کیا پھر مجھے یہ اندھے کنویں میں گرائیں گے
یہ دشتِ بے شجر ہی جو ٹھہرا تو پھر یہاں
سایہ کسی شجر کا میسر کہاں سے آئے
دورِ خزاں میں کیسے پلٹ کر بہار آئی
پژمردہ شاخ پر یہ گُلِ تر کہاں سے آئے
محسنؔ اس اختصار پہ قربان جائیے
کوزے میں بند ہو کے سمندر کہاں سے آئے
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment