آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر ان دنوں
آسیب کی ہے زد میں مِرا شہر ان دنوں
اک دوسرے سے دہشت و گریباں ہیں آج کل
ڈھایا ہے دوستوں نے بڑا قہر ان دنوں
بھائی بہا رہا ہے یہاں بھائی کا لہو
مسموم ہو گئی ہے فضائے کوئے یار کی
سانسوں میں گھُل گیا ہے مِری زہر ان دنوں
فرہادؔ نے تو خسروؔ بہائی تھی جوئے شیر
کھودی ہے میں نے خود کی اک نہر ان دنوں
فیروز ناطق خسرو
No comments:
Post a Comment