Sunday 29 November 2015

آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر ان دنوں

آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر ان دنوں
آسیب کی ہے زد میں مِرا شہر ان دنوں
اک دوسرے سے دہشت و گریباں ہیں آج کل
ڈھایا ہے دوستوں نے بڑا قہر ان دنوں
بھائی بہا رہا ہے یہاں بھائی کا لہو
یوں سُرخ ہو گیا ہے رُخِ دہر ان دنوں
مسموم ہو گئی ہے فضائے کوئے یار کی
سانسوں میں گھُل گیا ہے مِری زہر ان دنوں
فرہادؔ نے تو خسروؔ بہائی تھی جوئے شیر
کھودی ہے میں نے خود کی اک نہر ان دنوں

فیروز ناطق خسرو

No comments:

Post a Comment