زندانیانِ شام و سحر، خیریت سے ہیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر خیریت سے ہیں
شہرِ یقیں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا
دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں
آخر ہے کون جو کسی پل کہہ سکے یہ بات
ہے اپنے اپنے طور پر ہر چیز اس گھڑی
مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں
اب فیصلوں کا کم نظروں پر مدار ہے
یعنی تمام اہلِ نظر خیریت سے ہیں
پیروں سے آبلوں کا وہی ہے معاملہ
سودائیانِ حال کے سر خیریت سے ہیں
ہم جن گھروں کو چھوڑ کے آئے تھے ناگہاں
شکوے کی بات ہے وہ اگر خیریت سے ہیں
لُو چل رہی ہے، محو ہے اپنے میں دوپہر
خاک اُڑ رہی ہے اور کھنڈر خیریت سے ہیں
ہم اہلِ شہر اپنے جوانوں کے درمیاں
جونؔ! ایک معجزہ ہے اگر خیریت سے ہیں
برباد ہو چکا ہے ہنر اک ہنر کے ساتھ۔
اور اپنے صاحبانِ ہنر خیریت سے ہیں
شکرِ خدا شہید ہوئے اہلِ حق تمام
برگستوانِ تیغ و تبر خیریت سے ہیں
اب اُس کا قصرِ ناز کہاں اور وہ کہاں
بس در ہے اور بندۂ در خیریت سے ہیں
شاعر تو دو ہیں، میر تقی اور میر جونؔ
باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment