زندگی گزرتی ہے یوں کبھی کبھی تنہا
جس طرح مقابر میں شب کی خامشی تنہا
دیکھیے تو برپا ہیں ہر قدم پہ ہنگامے
سوچیے تو دنیا میں ہے بس آدمی تنہا
فطرتاً تو کرتا ہے سیکڑوں جتن، لیکن
علم بھی نہیں ان کو اور ان کے کوچے میں
جانے کب سے پھرتا ہے ایک اجنبی تنہا
ہر گمانِ منزل تک راستہ دکھاتی ہے
ظلمتِ دو عالم میں دل کی روشنی تنہا
انجمن کی شمعوں سے دل پگھلنے لگتے ہیں
کتنی جان لیوا ہے آپ کی کمی تنہا
جام دے کے جاتے ہو یہ تو کم سے کم سوچو
روح کا تشنج ہے شغلِ مے کشی تنہا
جو تِری تمنا میں دو جہاں سے درگزرے
آ کے ان دِوانوں میں بیٹھ دو گھڑی تنہا
اک طویل مدت سے ہے کشیدگی، لیکن
اب بھی آ نکلتے ہیں وہ کبھی کبھی تنہا
اب زمانہ سازوں کی قدر ہے یہاں دانش
اور اپنا سرمایۂ فنِ شاعری تنہا
احسان دانش
No comments:
Post a Comment