Sunday 29 November 2015

زندگی گزرتی ہے یوں کبھی کبھی تنہا

زندگی گزرتی ہے یوں کبھی کبھی تنہا
جس طرح مقابر میں شب کی خامشی تنہا
دیکھیے تو برپا ہیں ہر قدم پہ ہنگامے
سوچیے تو دنیا میں ہے بس آدمی تنہا
فطرتاً تو کرتا ہے سیکڑوں جتن، لیکن
ہر بشر اٹھاتا ہے،۔ بارِ زندگی تنہا
علم بھی نہیں ان کو اور ان کے کوچے میں
جانے کب سے پھرتا ہے ایک اجنبی تنہا
ہر گمانِ منزل تک راستہ دکھاتی ہے
ظلمتِ دو عالم میں دل کی روشنی تنہا
انجمن کی شمعوں سے دل پگھلنے لگتے ہیں
کتنی جان لیوا ہے آپ کی کمی تنہا
جام دے کے جاتے ہو یہ تو کم سے کم سوچو
روح کا تشنج ہے شغلِ مے کشی تنہا
جو تِری تمنا میں دو جہاں سے درگزرے
آ کے ان دِوانوں میں بیٹھ دو گھڑی تنہا
اک طویل مدت سے ہے کشیدگی، لیکن
اب بھی آ نکلتے ہیں وہ کبھی کبھی تنہا
اب زمانہ سازوں کی قدر ہے یہاں دانش
اور اپنا سرمایۂ فنِ شاعری تنہا

احسان دانش

No comments:

Post a Comment