Sunday 29 November 2015

تلاش رزق میں جائیں تو ہم کہاں جائیں

تلاشِ رزق میں جائیں تو ہم کہاں جائیں
زمین تنگ ہے، اور آسمان گیلا ہے
غریبِ شہر کے بچوں کے ہیں دہن سوکھے
امیرِ شہر کی کوٹھی کا لان گیلا ہے
سیاہ رات ہے، بارش ہے اور درندے ہیں
ذرا سنبھل کے قدم رکھ، مچان گیلا ہے
وہ خوش ہے دھوپ کئی دن کے بعد نکلی ہے
مجھے ہے خوف کہ اپنا مکان گیلا ہے
رہِ سلوک میں اتنا نہ تیز چل کہ ابھی
جبیں کا نقش، قدم کا نشان گیلا ہے
بڑھا نہ دستِ طلب احتیاط کر خسروؔ
گلوں کا رنگ ابھی میری جان گیلا ہے

فیروز ناطق خسرو

No comments:

Post a Comment