پیدا ہوئے ہیں چاہنے والے نئے نئے
انداز یار نے ہیں نکالے نئے نئے
گیسو بڑھا کے روز دیا کرتے ہیں وہ بَل
ڈسنے کو میرے سانپ ہیں پالے نئے نئے
گردوں کے دور میں انہیں کمّل نہیں نصیب
کانٹوں سے اتفاق ہے، سبزے سے ہے گریز
دیتے ہیں خار پاؤں کے چھالے نئے نئے
مژگاں کی ہیں صفیں فرسِ ناز پر سوار
سرکارِ حسن میں ہیں رسالے نئے نئے
زلفوں کی وہ لٹوں کو بناتے ہیں ناز سے
ہیں گورے گورے ہاتھ میں کالے نئے نئے
ہے ابتدائے عشق امانتؔ خدا بچائے
جلاد کے ہوئے ہیں حوالے نئے نئے
امانت لکھنوی
No comments:
Post a Comment