Friday, 27 November 2015

پیدا ہوئے ہیں چاہنے والے نئے نئے

پیدا ہوئے ہیں چاہنے والے نئے نئے
انداز یار نے ہیں نکالے نئے نئے
گیسو بڑھا کے روز دیا کرتے ہیں وہ بَل
ڈسنے کو میرے سانپ ہیں پالے نئے نئے
گردوں کے دور میں انہیں کمّل نہیں نصیب
جو لوگ اوڑھتے تھے دوشالے نئے نئے
کانٹوں سے اتفاق ہے، سبزے سے ہے گریز
دیتے ہیں خار پاؤں کے چھالے نئے نئے
مژگاں کی ہیں صفیں فرسِ ناز پر سوار
سرکارِ حسن میں ہیں رسالے نئے نئے
زلفوں کی وہ لٹوں کو بناتے ہیں ناز سے
ہیں گورے گورے ہاتھ میں کالے نئے نئے
ہے ابتدائے عشق امانتؔ خدا بچائے
جلاد کے ہوئے ہیں حوالے نئے نئے

امانت لکھنوی

No comments:

Post a Comment