Sunday 29 November 2015

پاس ادب ہے اس لیے ہم بولتے نہیں

پاسِ ادب ہے اس لیے ہم بولتے نہیں
جب بولتے ہیں آپ سے کم بولتے نہیں
ہیں جس قدر بھی آپ کے شائستۂ نظر
کھا کھا کے دل پہ ناوکِ غم بولتے نہیں
آواز دے رہا ہے یہ آزر کدہ سے کون
ہم نے تو یہ سنا تھا صنم بولتے نہیں
دنیا سمجھ رہی ہے انہیں ہم سے منسلک
جن کے معاملات میں ہم بولتے نہیں
حائل ہے ہم میں ان میں اک ادنیٰ سا اختلاف
مدت گزر گئی ہے بہم بولتے نہیں
اللہ رے وہ ان کی ندامت جفا کے بعد
گردن ہے اعتراف میں خم بولتے نہیں
ہم کو ہمارے منہ پہ وہ کہتے ہیں بے وفا
احسانؔ ہم خدا کی قسم بولتے نہیں

احسان دانش

No comments:

Post a Comment