Friday 27 November 2015

نہ مجھے سہی مرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے

نہ مجھے سہی مِرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے 
کبھی تُو بھی تو مِری یاد میں کوئی شام دیکھ گزار کے 
خمِ زلف اپنے ہی ہاتھ سے تو ہمیشہ کیوں ہے سنوارتا 
کبھی دیکھ زلفوں کو جھومتے مِری انگلیوں سے سنوار کے 
جو بناتے ساز تھے جسم کو، جو بناتے نغمہ تھے قلب کو 
کبھی کاش لوٹ کے آ سکیں وہی جھونکے پھر سے بہار کے 
مِری ہاں کے بدلے میں ہاں اگر تِری ہار ہے تو یہی سہی 
ہے عزیز جیت ہی کیوں تجھے، کبھی دیکھ تُو بھی تو ہار کے
میں دعائیں کرتا ہوں رات دن، نہیں میری سنتا خدا مگر 
تُو ہے نیک تیری سنے گا وہ، مجھے مانگ اس کو پکار کے
غمِ زندگی سے گِلہ نہیں کہ اسی سے سوز و گداز ہے 
گِلہ اس سے ہے جو نہ دے سکا کبھی چار لمحے بھی پیار کے
تھا ہرا بھرا جو کبھی چمن، وہی آج ڈھیر ہے خاک کا 
ہیں نصیب میں مِرے اب تو بس یہی تودے گرد و غبار کے 
یہ جو گھر کی چھت ہے، حدود ہیں، یہ امینِ حفظ و امان ہیں  
ہیں نشاں دراصل نجات کے، یہ ثبوت کب ہیں حصار کے

جاوید جمیل

No comments:

Post a Comment