Friday 27 November 2015

جام ہے شیشہ ہے ساقی بھی ہے برسات بھی ہے

جام ہے، شیشہ ہے، ساقی بھی ہے برسات بھی ہے
ان دنوں بادہ کشی دن بھی ہے اور رات بھی ہے
کچھ تو ہے اپنی طرف سے طلبِ ساغر مے
اور ساقی کی کچھ امداد و مدارات بھی ہے
جوشِ مستی بھی ہے، ہنگامِ ہم آغوشی بھی
خواہشِ وصل بھی ہے جائے ملاقات بھی ہے
ساز و مطرب بھی ہے اور نغمہ بھی ہے رقص بھی ہے
وہ بھی سرمست ہے اور ہم بھی نشہ میں سرشار
ہاتھ گردن میں ہے اور لطف و عنایات بھی ہے
یار ہے یار کے ہے ساتھ ظفرؔ بوس و کنار
اور اگر چاہیے کچھ بات تو وہ بات بھی ہے

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment