Friday, 27 November 2015

اڑا کر صحن گلشن سے مٹا کر آشیاں میرا

اڑا کر صحنِ گلشن سے، مٹا کر آشیاں میرا
مِرے سائے کے پیچھے پھِر رہا ہے باغباں میرا
مِرے احباب پیش آتے ہیں مجھ سے بے وفائی سے
وفاداری میں شاید کر رہے ہیں امتحاں میرا
تہ و بالا کیا ہے گردشِ اعمال نے مجھ کو
نہ دشمن ہے زمیں میری، نہ دشمن آسماں میرا
صفائے قلب سے اللہ رے، انسان کی عظمت
فرشتے چومتے ہیں آ کے سنگِ آستاں میرا
یہ ماتم ہے مصور اٹھ گیا گلزارِ قدرت کا
ہر اک طائر، ہر اک برگ چمن ہے نوحہ خواں میرا
سفر میں زندگی کے سو گیا ہوں تھک کے منزل پر
اجل کے نام سے بدنام ہے خوابِ گراں میرا
اسیری میں زباں سے میری سن کے رازِ آزادی
گریباں پھاڑ کر سر دُھن رہا ہے پاسباں میرا
الہیٰ خیر ہو کیا سرگزشتِ دل سنائے گا
لرزتا ہے مِری آنکھوں میں کیوں اشکِ رواں میرا
چکبست لکھنوی
(برج نرائن چکبست)

No comments:

Post a Comment