Monday, 30 November 2015

جور و جفائے حسن بھی عشق کے حق میں کم نہیں

جور و جفائے حسن بھی عشق کے حق میں کم نہیں
دوست کے دستِ ناز سے غم بھی ملے تو کم نہیں
آفتِ جاں ہے دردِ دل، آنکھ ذرا بھی نم نہیں
بات یہ ہے کہ عشق کو فرصتِ رنج و غم نہیں
ناصحِ ناشناسِ غم ہو چکے اب بہت کرم
عشق عذابِ جاں سہی، آپ بھی کوئی کم نہیں
روئے خدا کرے وہ خود، جس نے تمہیں رلا دیا
روتے ہو کیوں مِرے لیے، مجھ کو تو کوئی غم نہیں
گردشِ دہر سے خمارؔ ہو نہ ملول زینہار
دشمنِ جاں بہت سہی، دوست بھی تیرے کم نہیں

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment