اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے
یہ جو عالیؔ ہے یہ شاعر نہیں سودائی ہے
یہ تو سچ ہے مگر آگے تِری رسوائی ہے
میرے شکووں پہ نہ جا میں تو وہی ہوں جس نے
خود بھی گمنام رہیں ان کو بھی گمنام رکھیں
ہائے وہ لو گ جنہیں نازِ شیکبائی ہے
ہاں بھلا تیرے خد و خال کو ہم کیا سمجھیں
دل میں یونہی تِری تصوی اتر آئی ہے
ان کو آزردہ بھی کرتے نہیں بنتی، ورنہ
اپنی باتوں پہ بھلا کس کو ہنسی آئی ہے
ہم نے صحرا میں بھی رہ کر جو پکارا ہے تجھے
کتنے غنچوں کے چٹکنے کی صدا آئی ہے
اہل شہر، اہل چمن ، اہل قفس خیر تو ہے
کیا خبر بھی نہیں آئی کہ بہار آ ئی ہے
میری ہنگامہ پسندی پہ نہ الزام رکھو
شاید اک یہ بھی علاجِ غمِ تنہائی ہے
جمیل الدین عالی
No comments:
Post a Comment