آج کس مست کی رخصت ہے میخانے سے
شیشہ مل مل کے بہت روتا ہے پیمانے سے
کٹ گئی پاؤں کی بیڑی جو پہن لی زنجیر
ہوشیاری کوئی سیکھے تِرے دیوانے سے
دیکھ سکتا نہیں دل یار سے پہلو خالی
نہ چھپا خون کِیا ہے جو ہمارے دل کا
کھُل گیا اس نِگہِ شوخ کے سمجھانے سے
حسرتیں دل میں نکلتی ہی چلی آتی ہیں
بستیاں ہوتی ہیں پیدا مِرے ویرانے سے
اس کے آنے کی نہ ٹھہرے گی یہ ثابت ہے جلالؔ
آپ سے آپ طبیعت کے ٹھہر جانے سے
جلال لکھنوی
No comments:
Post a Comment