دل درد آشنا دیا ہم کو
لو دیا بھی تو کیا دیا ہم کو
فلکِ کج خرام نے آخر
خاک ہی میں ملا دیا ہم کو
ایک جلوے نے اس پری رو کے
اپنی فرقت کی دیکھ صناعی
غم کا پتلا بنا دیا ہم کو
بعد مدت پڑی یہ طرزِ خوشی
حالِ بد نے ہنسا دیا ہم کو
یاں تو دریا کشی کے دعوے تھے
اک نگہ نے چھکا دیا ہم کو
یار و اعداء میں تھے ہمیں پردہ
آخر اس نے اٹھا دیا ہم کو
مے کے دھوکے میں ہائے ساقی نے
آبِ حیواں پلا دیا ہم کو
ہم تمنائے وصل تھے کس کے
کیوں فلک نے مٹا دیا ہم کو
اس قیامت خرام نے ہے ہے
پھر دوبارہ جلا دیا ہم کو
کیا تصور نے سحر سازی کی
اس کو جھٹ پٹ دکھا دیا ہم کو
ایک دو اشکِ خوں بہا اے چشم
تُو نے دھبہ لگا دیا ہم کو
نامہ بر نے جواب کے بدلے
خط کے پرزوں کو لا دیا ہم کو
اللہ اللہ نیستی کے مزے
عیشِ سرمد بھلا دیا ہم کو
ہم تک آ جائے کس طرح عشرت
گردِ غم نے چھپا دیا ہم کو
لا کے ہستی سے دیر میں مجروحؔ
اک غضب میں پھنسا دیا ہم کو
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment