شہرِ یاراں
آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفلِ ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بجھتے بجھتے بجھ گئی ہے عرش کے حجروں میں آگ
دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف
اے صبا! شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام
شہر یاراں جس میں اس دم ڈھونڈتی پھرتی ہے موت
شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے ہدف
اِک طرف بجتی ہیں جوشِ زیست کی شہنائیاں
اِک طرف چنگھاڑتے ہیں اہرمن کے طبل و دف
جا کے کہنا اے صبا! بعد از سلامِ دوستی
آج شب جس دم گزر ہو شہرِ یاراں کی طرف
دشتِ شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں
ساقئ صبحِ طرب، نغمہ بلب، ساغر بکف
وہ پہنچ جائے تو ہو گی پھر سے برپا انجمن
اور ترتیبِ مقام و منصب و جاہ و شرف
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment