Sunday 29 November 2015

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے 
وہ شخص پھر سے مِرے رابطے میں آ جائے 
اسے کرید رہا ہوں طرح طرح سے کہ وہ 
جہت جہت سے مِرے جائزے میں آ جائے
کمال جب ہے کہ ، سنورے وہ اپنے درپن میں 
اور اس کا عکس، مِرے آئینے میں آ جائے 
کوئی گناہ نہیں ہے، تو یہ محبت بھی 
ہر ایک شے کی طرح ضابطے میں آ جائے 
کیا ہے ترکِ تعلق، تو مڑ کے دیکھنا کیا 
کہیں نہ، فرق تِرے فیصلے میں آ جائے 
دماغ، اہل محبت کا ساتھ دیتا نہیں 
اسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے
وہ میری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہو 
یہ واقعہ بھی کبھی دیکھنے میں آ جائے 
وہ ماہتابِ زمانہ ہے، لوگ کہتے ہیں 
تو اس کا نور مِرے شب کدے میں آ جائے 
یہ سوچ کر میں اسے بے وفا نہیں کہتا 
مِرا بیاں نہ کہیں تذکرے میں آ جائے 
بس اِک فراغؔ بچا ہے جنوں پسند یہاں 
کہو کہ وہ بھی مِرے قافلے میں آ جائے 

فراغ روہوی​

No comments:

Post a Comment