عجب کشاکشِ بیم و رجا ہے تنہائی
تِرے بغیر ترا سامنا ہے تنہائی
نئے دنوں کی صلیبیں گئے دنوں کے مزار
عذاب خود سے ملاقات کا ہے تنہائی
فضا میں ہیں کسی طوفانِ تند کے آثار
بہت اداس ہے دل دوستوں کی محفل میں
ہر ایک آنکھ میں چہرہ نما ہے تنہائی
شگفتہ پھولوں کا گلدستہ صحبتِ یاراں
بکھرتے پتوں کا ایک ڈھیر سا ہے تنہائی
میں آفتاب کو کیسے دکھاؤں تاریکی
تجھے میں کیسے بتاؤں کہ کیا ہے تنہائی
عجب سکون تھا شب آنسوؤں کی بارش میں
وہ غمگسار، وہ درد آشنا ہے تنہائی
نہیں ملے تھے تو تنہائی کس قدر تھی ضیاؔ
وہ مل کے بچھڑے تو اس سے سوا ہے تنہائی
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment