ایذا ہی دردِ ہجر سے پائی تمام رات
کل ایک لمحہ ہم نے نہ پائی تمام رات
بیدار ایک میں ہی فراقِ صنم میں ہوں
سوتی ہے ورنہ ساری خدائی تمام رات
اپنی شب وصال تھی یا جنگ غیر تھا
بارے اس اضطراب کا کچھ تو اثر ہوا
گھر میں انہیں بھی نیند نہ آئی تمام رات
وہ اور ان کے منہ کا دکھانا تو اک طرف
صورت نہ موت نے بھی دکھائی تمام رات
کیا نازکی ہے واہ کہ گجروں کے بوجھ سے
دُکھتی رہی وہ نرم کلائی تمام رات
بننے سنورنے ہی میں انہیں صبح ہو گئی
فرصت نہ عرضِ شوق کی پائی تمام رات
اپنی نہ کوئی شب ہوئی آرام سے بسر
رہتا ہے فکر روزِ جدائی تمام رات
زخمِ دل و جگر میں رہی ٹیس اس قدر
مجروحؔ مجھ کو نیند نہ آئی تمام رات
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment