Friday, 27 November 2015

اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے

اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے
روپہلی چاندنی ہے اور گھُپ اندھیرا ہے
کہیں کہیں کوئی تارہ، کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے
قدم قدم پہ بگولوں کو توڑتے جائیں
ادھر سے گزرے گا تو راستہ یہ تیرا ہے
افق کے پار جو دیکھی ہے روشنی تم نے
وہ روشنی ہے خدا جانے، یا اندھیرا ہے
سحر سے شام ہوئی شام کو یہ رات ملی
ہر ایک رنگ سمے کا بہت گھنیرا ہے
خدا کے واسطے غم کو بھی تم نہ بہلاؤ
اسے تو رہنے دو میرا، یہی تو میرا ہے

ماہ جبین ناز
مینا کماری ناز

No comments:

Post a Comment