کام تو ان کی محبت میں ہے ناکام سہی
نام تو عشق کے دفتر میں ہے بدنام سہی
عہد میں تیرے جفا ہی کا وفا نام سہی
دل دُکھانا جسے کہتے ہیں، وہ آرام سہی
چلتے ہیں پیرِ مغان اور کوئی جام سہی
لاکھ دل یار کی اک ایک لگاوٹ کے نثار
اس کا آغاز تو اچھا ہے، بد انجام سہی
مست آنکھوں کے بھی بوسے ہمیں ساقی دے ڈال
خم پلائے ہیں جہاں اور یہ دو جام سہی
جلال لکھنوی
No comments:
Post a Comment