Sunday 22 November 2015

چپ ہے کچھ خون کر کے بسمل کا

چپ ہے کچھ خون کر کے بسمل کا
واہ کیا پوچھنا ہے قاتل کا
ہم بھی اک بندۂ خدا تھے بتو
عشق نے بندہ کر دیا دل کا
کہہ کے وہ اٹھ گئے کہ 'مشکل ہے
'سہل کرنا تمہاری مشکل کا
ٹپکیں آنکھوں سے اشک سرخ مگر
دیکھ کر رنگ اس کی محفل کا
نام اس بے وفا کا لو نہ جلالؔ
ذکر کیا اب گئے ہوئے دل کا

جلال لکھنوی

No comments:

Post a Comment