غریبِ شہر نے جب بھی بلند کی آواز
امیرِ شہر نے جکڑی زبان مُٹّھی میں
یہی تو اصل اثاثہ تھا مرنے والے کا
دبا ہوا ہے جو اک سوکھا نان مُٹّھی میں
نہ جانے کس کے نصیبوں کو جگمگائے گا
ہوا ہے، رنگ ہے، خوشبو ہے، پھول ہے تتلی
لگی ہوئی ہے عجب اک دکان مُٹّھی میں
بس اک حرفِ یقیں کی تلاش میں برسوں
لئے پھِرا ہوں ہزار گمان مُٹّھی میں
ہزار طائرِ فکرِ رسا کو پرچایا
نہ آ سکا کبھی زورِ بیان مُٹّھی میں
یہ کیسے شعر نکالے ہیں بے بہا خسروؔ
غزل ہے یا کوئی ہیرے کی کان مُٹّھی میں
فیروز ناطق خسرو
No comments:
Post a Comment