کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے
سنا ہے ذکر ہمارا بھی داستان میں ہے
اسی نے دھوپ میں چلنے کی جیت لی بازی
وہ ایک شخص جو مدت سے سائبان میں ہے
زمین کو جو بھی اگانا ہے وہ اگائے گی
وہ لوٹ آئے تو اپنی بھی کچھ خبر دوں گا
مِرے لہو کا پرندہ ابھی اڑان میں ہے
اسے بھی چھوڑ کہ اب حوصلہ نہیں باقی
وہ ایک تیر جو اب تک تِری کمان میں ہے
یہیں کہیں نہ کہیں ہے شمیمؔ فاروقی
اگر یقیں میں نہیں ہے تو پھر گمان میں ہے
شمیم فاروقی
No comments:
Post a Comment