جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
پہر جہاں کٹ گئے، چار گھڑی اور بھی
پہلے ہی ساغر میں تھے ہم تو پڑے لوٹتے
اتنے میں ساقی نے دی اس سے کڑی اور بھی
پلکیں تو چھیدے تھیں دل، مارے تھی برچھی نگاہ
کچھ طپشِ دل تھی کچھ سنتے ہی فرقت کا نام
آگ سی ایک آگ پر آن پڑی اور بھی
میری شبِ وصل کی صبح چلی آتی ہے
روک لے اس دم فلک ایک گھڑی اور بھی
گرچہ اوبھر آئی ہیں تن پر مِرے پر میاں
اتنی لگائیں جہاں ایک چھڑی اور بھی
کیا کہوں اس شوخ کی واہ میں خوبی نظیرؔ
سنتے ہیں اس بات کے ایک جڑی اور بھی
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment