Saturday, 28 November 2015

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
پہر جہاں کٹ گئے، چار گھڑی اور بھی
پہلے ہی ساغر میں تھے ہم تو پڑے لوٹتے
اتنے میں ساقی نے دی اس سے کڑی اور بھی
پلکیں تو چھیدے تھیں دل، مارے تھی برچھی نگاہ
ابرو نے اس پر سے ایک تیغ جڑی اور بھی
کچھ طپشِ دل تھی کچھ سنتے ہی فرقت کا نام
آگ سی ایک آگ پر آن پڑی اور بھی
میری شبِ وصل کی صبح چلی آتی ہے
روک لے اس دم فلک ایک گھڑی اور بھی
گرچہ اوبھر آئی ہیں تن پر مِرے پر میاں
اتنی لگائیں جہاں ایک چھڑی اور بھی
کیا کہوں اس شوخ کی واہ میں خوبی نظیرؔ
سنتے ہیں اس بات کے ایک جڑی اور بھی

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment