Friday 27 November 2015

جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل

جو ہو سکے تو کبھی قیدِ جسم و جاں سے نکل
یہاں سے میں بھی نکلتا ہوں تُو وہاں سے نکل
اِدھر اُدھر سے نکلنا بہت ہی مشکل ہے
بڑھے گی بھیڑ ابھی اور درمیاں سے نکل
زمیں بھی تیری ہے، مالک غلام بھی تیرے 
کبھی تو میرے خدا! اپنے آسماں سے نکل
ازل سے دشتِ جنوں تیرے انتظار میں ہے
قبائے آگہی اب پھینک دے مکاں سے نکل
تجھے تو منزلِ موہوم تک پہنچنا ہے
کڑی ہے دھوپ مگر پھر بھی سائباں سے نکل
سنے گا کوئی نہ سمجھے گا تیری بات شمیمؔ
ہزار بار کہا حرفِ رائیگاں سے نکل

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment