Sunday 28 May 2017

شاید مری لے اس کو سنائی نہیں دیتی

شاید مِری لے اس کو سنائی نہیں دیتی
کیوں میری انا مجھ کو رہائی نہیں دیتی
تھا پہلے بہت شور نہاں خانۂ دل میں
اب تو کوئی سِسکی بھی سنائی نہیں دیتی
خوابوں کی تجارت میں یہی ایک کمی ہے
چلتی ہے دکاں خوب، کمائی نہیں دیتی

وہ اب کبھی نہ ملے گا یقین سا کیوں ہے

وہ اب کبھی نہ ملے گا یقین سا کیوں ہے
یہ انتظار کا گھر بے مکین سا کیوں ہے
بسے بسائے ہوئے ہیں یہ گھر زمانوں کے
نظارہ ان کا نئی سر زمین سا کیوں ہے
نہ اس کے حسن کا ثانی نہ اس کی فطرت کا
وہ بے مثال سہی بے یقین سا کیوں ہے

ہم کہاں غیر کا احسان لیا کرتے ہیں

ہم کہاں غیر کا احسان لیا کرتے ہیں
ہاں عزیزوں کا کہا مان لیا کرتے ہیں
دشت سے لا کے بٹھا دیتے ہیں گھر میں ہر دم
شہر والے مجھے پہچان لیا کرتے ہیں
ہم تخیل سے بناتے ہیں خود اپنے قصے
بس تِرے عشق سے عنوان لیا کرتے ہیں

مانا کہ تری ہم نفسی اور ہی کچھ ہے

مانا کہ تِری ہم نفسی اور ہی کچھ ہے
لیکن مِری دنیا میں کمی اور ہی کچھ ہے
ہر آن بدلتے ہوئے منظر نے دکھایا
کچھ اور ابھی تھا جو ابھی اور ہی کچھ ہے
ہم خیر سے دنیا کو بناتے رہے جنت
اب غور سے دیکھا تو بنی اور ہی کچھ ہے

Thursday 25 May 2017

ہجر کو وصل میں وہ رات کی رانی بدلے

ہجر کو وصل میں وہ رات کی رانی بدلے
آ گیا ہوں تو محبت کی کہانی بدلے
دوسری بار بھی جنت سے نکل آیا ہوں
میں جو بدلوں تو مِری نقل مکانی بدلے
بدتمیزوں سے نہیں بنتی اسے کہہ دے کوئی
گاؤں کی ہے تو ابھی آنکھ کا پانی بدلے

اس گھٹن کو نہ یوں گھٹ گھٹ کے منایا جائے

اس گھٹن کو نہ یوں گھٹ گھٹ کے منایا جائے 
دل میں ہے شور تو پھر شور مچایا جائے
ایک انسان کی پوجا تو نہیں ہو سکتی
اتنا اچھا ہے تو پھر ہاتھ لگایا جائے
کِتنے اچھوں سے محبت کا نہ اظہار کیا
اب جو فرصت ہے تو مل مل کے بتایا جائے

کب سیانوں سے چل سکی دنیا

کب سیانوں سے چل سکی دنیا
اب دوانوں سے بات چل رہی ہے
بس اگائیں گے تیرے رنگ کے پھول
ان کسانوں سے بات چل رہی ہے
گاؤں نے راہ روک رکھی ہے
کچھ مکانوں سے بات چل رہی ہے

گاؤں میں صرف گھر ہیں پتھر کے

گاؤں میں صرف گھر ہیں پتھر کے
شہر کے لوگ سنگِ مرمر کے
کوئی میرے سوا بھی پھینکتا ہے
تیرے رستوں میں پھول کیکر کے
جس کو آنی ہے موت آنی ہے
گھر میی بیٹھی رہو نہ یوں ڈر کے

تو بچے پالتے اچھی سی نوکری کرتے

تو بچے پالتے اچھی سی نوکری کرتے
ہمارے بس میں جو ہوتا تو شاعری کرتے
کسی بہانے تعلق نبھانا تھا تم سے
یہ دوستی نہیں ہوتی تو دشمنی کرتے
جناب عشق میں ادلے کا بدلہ تھوڑی ہے
کہ تم نے دھوکا کیا تھا تو ہم وہی کرتے

دنیا داری ہے تو دنیا کی طرف چلتے ہیں

دنیا داری ہے تو دنیا کی طرف چلتے ہیں
عشق زندہ ہے تو صحرا کی طرف چلتے ہیں
کیوں کہا، کیسے کہا، میں نہیں سنتا تیری 
چل ابھی گھوم کے دریا کی طرف چلتے ہیں
تُو ہے سُنی تو مدینے کی طرف منہ میرا
تُو وہابی ہے تو کعبہ کی طرف چلتے ہیں

ہوا و حرص کی محراب سے نکالتا ہوں

ہوا و حرص کی محراب سے نکالتا ہوں
تُو پارسا ہے تجھے خواب سے نکالتا ہوں
مِرا اٹوٹ تعلق ہے اس زمین کے ساتھ
کہ میں تو چاند بھی تالاب سے نکالتا ہوں
میں ہند، سندھ کی زندہ روایتوں کا امیں
نئی غزل کو میں اعراب سے نکالتا ہوں

Wednesday 24 May 2017

وقت نے کیسی کروٹ لی ہے سر والے سنگسار ہوئے

وقت نے کیسی کروٹ لی ہے سر والے سنگسار ہوئے
سر ہی نہیں تھا شانوں پہ جن کے پھر وہ سب سردار ہوئے
جتنے جواں تھے ان کے ارماں اتنے ہی انکار ہوئے
جب یہ سیاست حسن کی سمجھے عشق سے ہم سرشار ہوئے
چلئے اب تحقیق ہی کر لیں مدت گزری وار ہوئے
پشت پہ خنجر کس نے مارا، کیا اپنے غدار  ہوئے

کج اداؤں دلرباؤں کے پتے معلوم ہیں

کج اداؤں، دلرباؤں کے پتے معلوم ہیں
جسم سے اٹھتی صداؤں کے پتے معلوم ہیں
کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر
مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں
سیکھ ہی پائے نہیں ہم سر جھکانے کا ہنر
ورنہ سب  باطل خداؤں کے پتے معلوم ہیں

تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی

تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
تقدیر پہ انگلی کوئی ہرگز نہ اٹھائے
کس سمت ہوا کیا خبر اس بار چلے گی

اب جو سویا تو یہ کروں گا میں

اب جو سویا تو یہ کروں گا میں
خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں
بزم میں سچ بھی میں نے بولا ہے
زہر کا جام بھی پیوں گا میں
اے مجھے موت دینے والے سن
تُو ہی مر جائے گا، جیوں گا میں

ہوا ہے یوں محبت کا اثر آہستہ آہستہ

ہوا ہے یوں محبت کا اثر آہستہ آہستہ
اِدھر آہستہ آہستہ، اُدھر آہستہ آہستہ
حریمِ حُسن کے آداب رکھ پیشِ نظر اے دل
دھڑک آہستہ آہستہ، گزر آہستہ آہستہ
مِری آنکھوں میں آ دل میں اتر پھر روح میں کھو جا
مگر آہستہ آہستہ،۔ مگر آہستہ آہستہ

کلی کو گدگداتی ہے بہار آہستہ آہستہ

کلی کو گدگداتی ہے بہار آہستہ آہستہ
گلوں پر آ رہا ہے اب نکھار آہستہ آہستہ
یہ دل کا درد ہے اِس میں سکوں مشکل سے ملتا ہے
’’ذرا ٹھہرو کہ آئے گا قرار آہستہ آہستہ‘‘
لگائے ہیں یہ کس کس نے مجھے معلوم ہے سب کچھ
کروں کا دل کے زخموں کا شمار آہستہ آہستہ

بس اک نگاہ سے مست شراب کر کے مجھے

بس اک نگاہ سے مستِ شراب کر کے مجھے
کسی نے چھوڑ دیا انتخاب کر کے مجھے
مرے سوال پر آنکھیں اٹھی تھیں لب تھے چپ
دیا جواب مگر لاجواب کر کے مجھے
وہ اس ادا سے چلے آج اجنبی بن کر
نظر بچا کے نظر سے خطاب کر کے مجھے

یہ اضطراب رہے گا قرار آنے تک

یہ اضطراب رہے گا قرار آنے تک
نہ مسکرائیں گے غنچے بہار آنے تک
مریضِ غم میں کہاں تابِ انتظار اتنی
نہ جانے حال ہو کیا غمگسار آنے تک
جبیں جو روز جھکاتے ہیں یہ خبر ہے انہیں
وہ دل جھکا نہ سکے اعتبار آنے تک

داستاں میں تری کہیں کچھ بھی

داستاں میں تِری کہیں کچھ بھی
سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں کچھ بھی
حاسدوں نے کئے جتن کتنے
کر نہ پاۓ مجھے حزیں کچھ بھی
ذکر کرتا نہیں کوئی اس کا
اب میں سنتا نہیں کہیں کچھ بھی

تعجب ہے کہ اس پر باغباں حیراں نہیں ہوتا

تعجب ہے کہ اس پر باغباں حیراں نہیں ہوتا
کوئ بھی پھول کیوں اس باغ میں خنداں نہیں ہوتا
انا جس کا ہو شیوہ اور نخوت جس کی فطرت ہو
جہاں میں قابلِ تعظیم وہ انساں نہیں ہوتا
اگر محفوظ ہوتا رات میں تنہا سفر کرنا
تو یہ شہرِ تجلّی اس قدر وِیراں نہیں ہوتا

Sunday 21 May 2017

پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا

پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا 
کوئی منظر تو مِری آنکھ میں پیارا ہوتا 
ہم پلٹ آئے مسافت کو مکمل کر کے 
اور بھی چلتے اگر ساتھ تمہارا ہوتا 
ہم محبت کو سمندر کی طرح جانتے ہیں 
کود ہی جاتے اگر کوئی کنارہ ہوتا 

ساتھ رونے نہ سہی گیت سنانے آتے

ساتھ رونے نہ سہی گیت سنانے آتے 
تم مصیبت میں مِرا ہاتھ بٹانے آتے 
عمر بھر جاگ کے آنکھوں کی حفاظت کی ہے 
جانے کب لوگ مِرے خواب چرانے آتے 
کھینچ لائی ہے تِرے دشت کی وحشت ورنہ 
کتنے دریا ہی مِری پیاس بجھانے آتے 

ایک اک ذرہ محبت سے مجھے دیکھتا ہے

ایک اک ذرہ محبت سے مجھے دیکھتا ہے
دشت یہ کون سی وسعت سے مجھے دیکھتا ہے
کوئی دیوار اٹھائی ہی نہیں اس جانب
دیکھنے والا سہولت سے مجھے دیکھتا ہے
میں ہوں اس باغ میں رکھا ہوا کوئی منظر
ہر کوئی اپنی ضرورت سے مجھے دیکھتا ہے

Friday 19 May 2017

ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا

ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا 
وہ خود ہی ایک دن اس دائرے سے گزرے گا
بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند 
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا
جو اپنے آپ گزرتا ہے کوچۂ دل💞 سے
مجھے گماں تھا مِرے مشورے سے گزرے گا

پھول بچھوائے گئے شط سبو کھولی گئی

پھول بچھوائے گئے شطِ سبو کھولی گئی
اس طرح پھر ان سے راہِ گفتگو کھولی گئی
زندگی کے بیچ جن کا کھولنا دشوار تھا 
کھل گئے جب انکی زلفِ مشکبو کھولی گئی
شب گئے اس پیرہن کا بھی معمہ حل ہوا
یہ حقیقت بھی بہ سعی و جستجو کھولی گئی

Monday 15 May 2017

ادھر ادھر کہیں کوئی نشاں تو ہو گا ہی

اِدھر اُدھر کہیں کوئی نشاں تو ہو گا ہی
یہ رازِ بوسۂ لب ہے، عیاں تو ہو گا ہی
تمام شہر جو دُھندلا گیا تو حیرت کیوں
دلوں میں آگ لگی ہے، دھواں تو ہو گا ہی
بروزِ حشر ملے گا ضرور صبر کا پھل
یہاں تُو ہو نہ ہو میرا، وہاں تو ہو گا ہی

سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا

سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا
کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
بند آنکھو! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا
اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا 
جب بھی تم چاہو جدا ہونا، جدا ہو جانا

طاق نسیاں سے اتر یاد کے دالان میں آ

طاقِ نسیاں سے اتر، یاد کے دالان میں آ
بھولے بسرے ہوۓ اے شخص! مِرے دھیان میں آ
عین ممکن ہے کہ ہو جائے جو نا ممکن ہے
تُو کسی روز مِرے حلقۂ امکان میں آ
آج کے بعد اگر آیا تو کیا آیا تُو
تجھ کو آنا ہے تو اے یار! اسی آن میں آ

ضبط کے امتحان سے نکلا

ضبط کے امتحان سے نکلا
پھول آخر چٹان سے نکلا
جان تن سے نکل گئی لیکن
تُو نہیں میرے دھیان سے نکلا
نہ نکلنے پہ تھا بضد سورج
پھر کسی کی اذان سے نکلا

Thursday 11 May 2017

ختم ہو جائے گا سرمایہ جاں کتنا ہے

ختم ہو جائے گا سرمایۂ جاں کتنا ہے
اپنے ہونے کا مگر مجھ کو گماں کتنا ہے
استفادہ تپشِ دل سے کِیا لوگوں نے
آگ دیکھی نہ یہ دیکھا کہ دھواں کتنا ہے
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو
تم  کو پایا ہے تو اندیشۂ جاں کتنا ہے

کب بھلا ان کی سرزنش کی ہے

کب بھلا ان کی سرزنش کی ہے
ہم نے زخموں کی پرورش کی ہے
لہلہاتی ہے غم کی پھلواری
آبیاری روش روش کی ہے
قرب سے اس کے ذہن کی حالت
ہو بہ ہو آبِ مرتعش کی ہے

قربت ہمیں نہ بخشئے احسان کی طرح

قربت ہمیں نہ بخشئے احسان کی طرح
منظور ہم کو پیار نہیں دان کی طرح
وہ کامیاب ٹھہرے تجارت میں عشق کی
جو حسن کو سمجھتے ہیں سامان کی طرح
یہ آخری سہارا ہے ساقی! ذرا سنبھل
پیمانہ ٹوٹ جائے نہ پیمان کی طرح

خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ

خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ
بیٹھے بٹھائے آگ لگانے لگے ہیں آپ
پھر دے رہی ہے گردشِ دوراں فریبِ شوق
’’رہ رہ کے پھر خیال میں آنے لگے ہیں آپ‘‘
وہ ہو چکا ہے کب کا نگاہوں سے آشکار
جو راز آج ہم سے چھپانے لگے ہیں آپ

کوئی ہو معتبر سے معتبر دیکھا نہیں جاتا

کوئی ہو معتبر سے معتبر دیکھا نہیں جاتا
لباسِ راہزن میں راہبر دیکھا نہیں جاتا
کبھی پرواز تھی جن طائروں کی آسمانوں میں
زمیں پر اب انہیں بے بال و پر دیکھا نہیں جاتا
تمہارے سنگِ در سے اٹھ کے جائیں تو کہاں جائیں
کہ ہم سے اب کسی کا سنگِ در دیکھا نہیں جاتا

آنسو جھلک رہے ہیں چشم فسوں اثر میں

آنسو جھلک رہے ہیں چشمِ فسوں اثر میں
یا مۓ بھری ہوئی ہے پیمانۂ نظر میں
پاتا ہوں شامِ غم کو مِنت کش سحر میں
کروٹ بدل رہی ہے دنیا مِری نظر میں
کچھ پُر شکن جبیں سے ظاہر ہے برہمی سی
کچھ لطف بھی نہاں ہے بہکی ہوئی نظر میں

رواں دواں ہیں اندھیرے بھی بام و در کی طرف

رواں دواں ہیں اندھیرے بھی بام و در کی طرف
میں جا رہا ہوں سرِ شام اپنے گھر کی طرف
ڈرا سکیں گے نہ آثار آندھیوں کے انہیں
پرندے لوٹنے والے ہیں اب شجر کی طرف
پلٹ کے اپنے خد و خال پر ہی آتی ہے
نگاہ مہر کی جانب ہو یا قمر کی طرف

چاہت میں جس کی میں نے بھرا گھر لٹا دیا

چاہت میں جس کی میں نے بھرا گھر لٹا دیا
وہ پھر بھی کہہ رہا ہے مجھے تُو نے کیا دیا
دشمن ہے میرا کون؟ مرے اس سوال پر
دل نے مجھے جواب میں اک آئینہ دیا
ارمان و آرزو کا نشاں دور تک نہیں
اس بے کسی کی آگ نے دل کو جلا دیا

نظر نہ آئے گی ماضی کی داستانوں میں

نظر نہ آئے گی ماضی کی داستانوں میں
جو ٹوٹ پھوٹ ہے اس وقت خاندانوں میں
مکیں ہوں دوستو! میں ایسے شہرِ زنداں کا
جہاں پہ لوگ نظر بند ہیں مکانوں میں
نہ جانے اور ستم ڈھائے گا یہ سورج کیا
دراڑیں پڑنے لگیں اب تو سائبانوں میں

Tuesday 2 May 2017

زندگی کس قدر ہے گراں لکھ گیا

زندگی کس قدر ہے گِراں، لِکھ گیا
وقت چہروں پہ مایوسیاں لکھ گیا
روح کے کرب کا کچھ مداوا  نہ تھا
ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا
سر درختوں کے کس نے قلم کر دیئے
شہر میں دور تک بستیاں لکھ گیا

اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے

اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے
ہر طرف سے دیر تک پتھر چلے
اپنی قسمت میں ہے گردش، کیا رکیں
ہم اگر ٹھہریں تو ہر منظر چلے
رات کے ساتھی کو اب رخصت کرو
کچھ اسے بخشو کہ اس کا گھر چلے

فتنہ و شر سے سدا خود کو بچائے رکھئے

فتنہ و شر سے سدا خود کو بچائے رکھئے
روٹھنے والوں کو پہلے سے منائے رکھئے
بولئے جھوٹ سراسر،۔۔ مگر اتنا کیجے
دھوپ کے چشمے سے آنکھوں کو چھپائے رکھئے
وہ بھی عاشق ہی تو ہے، کام کبھی آئے گا
دل نہیں دیتے نہ دیں دوست بنائے رکھئے

کچھ اس طرح فرار غم کی راہ ڈھونڈتا رہا

کچھ اس طرح فرارِ غم کی راہ ڈھونڈتا رہا
مِرا جنوں  نئے نئے گناہ ڈھونڈتا رہا
تمام آرزوئیں دوزخوں کی نذر ہو گئیں
تمام عمر جنتوں کی راہ ڈھونڈتا رہا
مصیبتوں سے ہارنا مِرا مزاج ہی نہ تھا
مسرتوں کے لمحے گاہ گاہ ڈھونڈتا رہا

لاکھ روکا تھا زمانے نے مگر لایا ہوں

لاکھ روکا تھا زمانے نے مگر لایا ہوں
موسمِ مرگ میں جینے کی خبر لایا ہوں
دھول چہرے پہ جمی، پاؤں میں چھالوں کی بہار
بس یہی صاحبو! سامانِ سفر لایا ہوں
گو کہ پامالِ زمانہ ہوں، مگر تیرے لیے
اس اندھیرے میں بھی امیدِ سحر لایا ہوں

ٹھکرا کے اپنی ساری تب و تاب آ گئے

ٹھکرا کے اپنی ساری تب و تاب آ گئے
محفل میں لے کے ہم دلِ بے تاب آ گئے
ہم سے لکھے گئے نہ کسی طور آج تک
ایسے بھی اِس کہانی میں کچھ باب آ گئے
جاگا تو مجھ سے روٹھ کے جانے کہاں گئے
سویا تو مجھ کو لینے مِرے خواب آ گئے

آستیں میں سانپ پالے جائیں گے

آستیں میں سانپ پالے جائیں گے
نِت نئے رشتے نکالے جائیں گے
پہلے کرنا ہے انہیں بے بال و پر
یہ پرندے پھر اچھالے جائیں گے
محوِ حیرت ہوں کہ سُوئے مۓ کدہ
مجھ سے پہلے ہوش والے جائیں گے

سچ جو کہتا ہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے

سچ جو کہتا ہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے
خود مجھے اپنی ہی دانائی سے ڈر لگتا ہے
ہم نے دیکھے ہیں بدلتے ہوئے موسم کتنے
موسمِ گُل! تِری انگڑائی سے ڈر لگتا ہے
جانے کب کون سے منظر کو اتارے دل میں
اِس بھٹکتی ہوئی بینائی سے ڈر لگتا ہے