Sunday 28 May 2017

وہ اب کبھی نہ ملے گا یقین سا کیوں ہے

وہ اب کبھی نہ ملے گا یقین سا کیوں ہے
یہ انتظار کا گھر بے مکین سا کیوں ہے
بسے بسائے ہوئے ہیں یہ گھر زمانوں کے
نظارہ ان کا نئی سر زمین سا کیوں ہے
نہ اس کے حسن کا ثانی نہ اس کی فطرت کا
وہ بے مثال سہی بے یقین سا کیوں ہے
یہ آسمان پہ کس کے لہو کے چھینٹے ہیں
فضا کا رنگ تِری آستین سا کیوں ہے
تُو آدمی ہے، مہذب بھی نرم خو بھی ہے
مگر تِرا لب و لہجہ مشین سا کیوں ہے

مدحت الاختر

No comments:

Post a Comment