وہ اب کبھی نہ ملے گا یقین سا کیوں ہے
یہ انتظار کا گھر بے مکین سا کیوں ہے
بسے بسائے ہوئے ہیں یہ گھر زمانوں کے
نظارہ ان کا نئی سر زمین سا کیوں ہے
نہ اس کے حسن کا ثانی نہ اس کی فطرت کا
یہ آسمان پہ کس کے لہو کے چھینٹے ہیں
فضا کا رنگ تِری آستین سا کیوں ہے
تُو آدمی ہے، مہذب بھی نرم خو بھی ہے
مگر تِرا لب و لہجہ مشین سا کیوں ہے
مدحت الاختر
No comments:
Post a Comment