ختم ہو جائے گا سرمایۂ جاں کتنا ہے
اپنے ہونے کا مگر مجھ کو گماں کتنا ہے
استفادہ تپشِ دل سے کِیا لوگوں نے
آگ دیکھی نہ یہ دیکھا کہ دھواں کتنا ہے
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو
سب یہی کہتے ہیں روداد ہماری سن کر
بات مہمل ہے مگر زورِ بیاں کتنا ہے
مسلم سلیم
No comments:
Post a Comment