Thursday, 11 May 2017

ختم ہو جائے گا سرمایہ جاں کتنا ہے

ختم ہو جائے گا سرمایۂ جاں کتنا ہے
اپنے ہونے کا مگر مجھ کو گماں کتنا ہے
استفادہ تپشِ دل سے کِیا لوگوں نے
آگ دیکھی نہ یہ دیکھا کہ دھواں کتنا ہے
پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو
تم  کو پایا ہے تو اندیشۂ جاں کتنا ہے
سب یہی کہتے ہیں روداد ہماری سن کر
بات مہمل ہے مگر زورِ بیاں کتنا ہے

مسلم سلیم

No comments:

Post a Comment