Thursday, 11 May 2017

خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ

خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ
بیٹھے بٹھائے آگ لگانے لگے ہیں آپ
پھر دے رہی ہے گردشِ دوراں فریبِ شوق
’’رہ رہ کے پھر خیال میں آنے لگے ہیں آپ‘‘
وہ ہو چکا ہے کب کا نگاہوں سے آشکار
جو راز آج ہم سے چھپانے لگے ہیں آپ
اُتنا ہی بڑھ رہا ہے مِرے دل کا اشتیاق
میرے قریب جتنا کہ آنے لگے ہیں آپ
اب کیا بتائیں فوقؔ کی سرمستیوں کا حال
اب تو نظر نظر میں پلانے لگے ہیں آپ

فوق کریمی

No comments:

Post a Comment