خوابیدہ حسرتوں کو جگانے لگے ہیں آپ
بیٹھے بٹھائے آگ لگانے لگے ہیں آپ
پھر دے رہی ہے گردشِ دوراں فریبِ شوق
’’رہ رہ کے پھر خیال میں آنے لگے ہیں آپ‘‘
وہ ہو چکا ہے کب کا نگاہوں سے آشکار
اُتنا ہی بڑھ رہا ہے مِرے دل کا اشتیاق
میرے قریب جتنا کہ آنے لگے ہیں آپ
اب کیا بتائیں فوقؔ کی سرمستیوں کا حال
اب تو نظر نظر میں پلانے لگے ہیں آپ
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment