شاید مِری لے اس کو سنائی نہیں دیتی
کیوں میری انا مجھ کو رہائی نہیں دیتی
تھا پہلے بہت شور نہاں خانۂ دل میں
اب تو کوئی سِسکی بھی سنائی نہیں دیتی
خوابوں کی تجارت میں یہی ایک کمی ہے
ہر تارِِ نفس ہے متحرک متواتر
رخصت ہی مجھے نغمہ سرائی نہیں دیتی
کیا دھند ہے اشکوں کی مسلط دل و جاں پر
دیکھی ہوئی دنیا بھی دکھائی نہیں دیتی
چلنے کو تو سب یار کمر بستہ کھڑے ہیں
جس راہ پہ چلنا ہے سجھائی نہیں دیتی
کانٹوں پہ چلاتی ہے کوئی اور ہی لذت
وحشت کا صلہ آبلہ پائی نہیں دیتی
میں قید محالات سے دم بھر میں نکل جاؤں
حاصل کی ہوس مجھ کو رہائی نہیں دیتی
میں اپنی ہی مٹی سے بنا لیتا ہوں مدحتؔ
وہ چیز جو اوروں کی خدائی نہیں دیتی
مدحت الاختر
No comments:
Post a Comment