Friday, 9 June 2017

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

گماں تھا یا تِری خوشبو، یقین اب بھی نہیں 
نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں 
کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں 
سحابِ خواب نہیں، گریۂ طلب بھی نہیں
ہنسی سے چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی 
عجب اداسی ہے جس کا کوئی سببب بھی نہیں 
ٹھہر گیا ہے مِرے دل میں اک زمانے سے 
وہ وقت جسکی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں 
تمام عمر تِرے التفات کو ترسا 
وہ شخص جو ہدفِ ناوکِ غضب بھی نہیں 
مفاہمت نہ کر ارزاں، نہ ہو بھرم نہ گنوا 
ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب، تب بھی نہیں 
بْرا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا 
جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment