گماں تھا یا تِری خوشبو، یقین اب بھی نہیں
نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں
کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں
سحابِ خواب نہیں، گریۂ طلب بھی نہیں
ہنسی سے چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی
ٹھہر گیا ہے مِرے دل میں اک زمانے سے
وہ وقت جسکی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں
تمام عمر تِرے التفات کو ترسا
وہ شخص جو ہدفِ ناوکِ غضب بھی نہیں
مفاہمت نہ کر ارزاں، نہ ہو بھرم نہ گنوا
ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب، تب بھی نہیں
بْرا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا
جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment