Saturday 30 June 2018

آؤ پھر نظم کہیں

آؤ پھر نظم کہیں
پھر کسی درد کو سہلا کے سُجا لیں آنکھیں
پھر کسی دُکھتی ہوئی رگ سے چُھوا دیں نشتر
یا کسی بھولی ہوئی راہ پہ مُڑ کر اک بار
نام لے کر کسی ہمنام کو آواز ہی دیں
پھر کوئی نظم کہیں

گلزار

دور سنسان سے ساحل کے قریب

لینڈ سکیپ

دور سنسان سے ساحل کے قریب
ایک جواں پیڑ کے پاس
عمر کے درد لئے، وقت کی مٹیالی نشانی اوڑھے
بوڑھا سا پام کا ایک پیڑ، کھڑا ہے کب سے
سینکڑوں سال کی تنہائی کے بعد

چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی

فلمی گیت

چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی
پیروں کی بیڑی، کبھی لگے ہتھکڑی
سیدھے سیدھے راستوں کوتھوڑا سا موڑ دے دو
بے جوڑ روحوں کو ہلکا سا جوڑ دے دو
جوڑ دو نہ ٹوٹ جاۓ سانسوں کی لڑی
چھڑی رے چھڑی کیسی گلے میں پڑی

Saturday 23 June 2018

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں 
جہاں بجتے ہیں نقّارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
گِلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری 
پریشاں تم بھی ہوتے ہو، پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں، وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو 
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں

Friday 22 June 2018

شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے

شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے
سبز پیڑوں کی طرف ایک سڑک جاتی ہے
یک بہ یک یاد کوئی شخص مجھے آتا ہے
یک بہ یک آنکھ مِری یونہی چھلک جاتی ہے
جب تِرے وصل کی امید پکارے مجھ کو
دور تک ہجر کے کنگن کی کھنک جاتی ہے

Thursday 21 June 2018

موج در موج مچلتا ہوا پانی رکھتا

موج در موج مچلتا ہوا پانی رکھتا
تُو کہ دریا تھا سو دریا سی روانی رکھتا
تیرا کردار مثالی ہی نہیں تھا، ورنہ
ہر کہانی سے الگ اپنی کہانی رکھتا
نئے لوگوں، نئی دنیا سے شناسا ہو کر
کیسے کمرے میں وہ تصویر پرانی رکھتا

یہ رنج رائگانی ہی بہت ہے

یہ رنجٍ رائیگانی ہی بہت ہے
محبت کی نشانی ہی بہت ہے
تِرے صحرا کی جتنی پیاس بھی ہو
مِری آنکھوں کا پانی ہی بہت ہے
تمہیں برباد کرنے کو تمہارا 
خمارٍ حکمرانی ہی بہت ہے

میں اکیلا ہوں یہاں کوئی نہیں میرے ساتھ

میں اکیلا ہوں یہاں کوئی نہیں میرے ساتھ
کر گئے ہاتھ سبھی دشت نشیں میرے ساتھ
آسماں! دیکھ رفاقت تو اسے کہتے ہیں
بوجھ اٹھا کر مِرا چلتی ہے زميں میرے ساتھ
یہ بھی تو وقت کی جانب سے ہے دلجوئی مِری
ایک سے بڑھ کے رہا ایک یقيں میرے ساتھ

یاد خوش رنگ سے کچھ ایسے اجالی میں نے

یادِ خوشرنگ سے کچھ ایسے اجالی میں نے
ہجر کی شام بنا لی ہے وصالی میں نے
رختِ پرواز کی آسودگی اوروں کو مِلی
عمر بھر جھیلی مگر بے پر و بالی میں نے
رنگ جتنے تھے، چُرا لے گئی دنیا تیرے
جتنی خوشبو تھی مِری جان! سنبھالی میں نے

Wednesday 20 June 2018

تو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں

تُو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں
بس تِری مان کے میں کود پڑا پانی میں
یوں ہوۓ تھے مِرے اوسان خطا پانی میں
سانس لینا بھی مجھے بھول گیا پانی
اس قدر شور کی عادی نہ تھی آبی دنیا
جس قدر زور سے میں جا کے گرا پانی میں

شیشے کا برگد

شیشے کا برگد

مرے آنگن کے برگد میں
کسی نے کانچ کا پیوند ڈالا ہے
جبھی تو
کرچیاں اگتی ہیں شاخوں پر
شجر کے ان بلوری مرتبانوں میں

Sunday 10 June 2018

سارے رشتے محترم ہوتے ہیں لیکن ماں سے کم

سارے رشتے محترم
ہوتے ہیں، لیکن ماں سے کم
ماں سے بڑھ
کر کون 
ہوتا ہے شریکِ رنج و غم؟

اعتبار ساجد

مرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں

مرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں
کیوں اتنا لکھتے ہیں پاپا؟
اتنی تو کتابیں لکھ ڈالیں
اتنی تو شہرت حاصل کی
اتنی تو عزت حاصل کی
اب اور بھلا کیا چاہتے ہیں؟

تم آج بہت رنحیدہ ہو

تم آج بہت رنحیدہ ہو
کیوں آئی کٹہرے میں بیٹی
جو شہزادی کہلاتی ہے
تاریخ کی لیکن عادت ہے
یہ اپنی کتھا دہراتی ہے
تمہیں وہ عورت یاد آتی ہے؟

الیکشن آنے والے ہیں

الیکشن آنے والے ہیں

سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہم اپنا ووٹ کس کو دیں؟
کوئی قاتل، کوئی رہزن
کوئی ڈیزل، کوئی انجن
کہیں ہیں نان قیمے کے
کہیں انبار سکے کے