شیشے کا برگد
مرے آنگن کے برگد میں
کسی نے کانچ کا پیوند ڈالا ہے
جبھی تو
کرچیاں اگتی ہیں شاخوں پر
مقید آکسیجن کا بھی
دم گھٹنے لگا ہے
ہر اک پتا بنا ہے آتشی شیشہ
تو سائے کیا اگیں گے؟
پرندوں کے گھروں کے بھید بھی
ممکن نہیں پنہاں رہیں
برگد کے سینے میں
وہ دیکھو
شہپروں سے
خون تک رِستا
دکھائی دے رہا ہے
میں باہر پھینک کر آیا ہوں
اک مردہ گلہری کو
لو
اب ایک اور زخمی ہے
جسے چاروں طرف سے
چیونٹیوں نے گھیر رکھا ہے
یہی جی چاہتا ہے
مار کر پتھر کبھی شیشے کے برگد کو
میں چکنا چُور کر ڈالوں
مگر ڈرتا ہوں آنگن میں
مِرے بچے بھی ننگے پاؤں پھرتے ہیں
سعید دوشی
No comments:
Post a Comment