غنودگی اب غنودہ تر ہے
فلک کے کھیتوں میں خامشی ہے
نئے ستارے اگانے والے کسان کو نیند کی پڑی ہے
ضعیف و بیمار چاند شب کی مہیب وسعت میں کھو چکا ہے
مگر مِری نظم مرنے والوں کا ماجرا ہے
جب اس کے در سے میں اٹھا ملال کوئی نہ تھا
کہ میری جھولی میں باقی سوال کوئی نہ تھا
بہار آئی تو، اپنا سِوائے زِنداں کے
تمام شہر میں پُرسانِ حال کوئی نہ تھا
وہ دن ہی ٹھیک تھے، جب دل میں رُت بدلنے کا
گمان و خواب، یقین و خیال کوئی نہ تھا
کیا پوچھتے ہو یارو! حالِ تباہ میرا
بے مہر ہو گیا ہے وہ رشکِ ماہ میرا
تیری یہ کم نگاہی اور میرا یہ تڑپنا
تُو ہی بتا کہ کیونکر ہو گا نِباہ میرا
سودا ہوا ہے مجھ کو زلفوں کا تیری یاں تک
نشتر لگے تو نکلے لوہو سیاہ میرا
مت پوچھ کہ رحم اس کو مِرے حال پہ کب تھا
اب کہنے سے کیا فائدہ، جب تھا، کبھی تب تھا
اتنا بھی تو بے چین نہ رکھ دل کو مِرے تُو
آخر یہ وہی دل ہے جو آرام طلب تھا
کیا دل کے لگانے کا سبب پوچھے ہے ہمدم
بے چیز تو البتہ نہیں کچھ تو سبب تھا
ہونٹوں سے چھُو لو تم میرا گِیت امر کر دو
بن جاؤ مِیت میرے، میری پرِیت امر کر دو
نہ عمر کی سِیما ہو، نہ جنم کا ہو بندھن
جب پیار کرے کوئی تو دیکھے کیول من
نئی رِیت چلا کر تم، یہ رِیت امر کر دو