جب سے اسیرِ زلفِ گِرہ گِیر ہو گیا
میں بے نیازِ حلقۂ زنجیر ہو گیا
اب واعظانِ شہر کے چہرے بھی زرد ہیں
اب دردِ عشق، کتنا ہمہ گیر ہو گیا
نورِجہاں کوئی نہ کوئی یوں تو سب کی تھی
جاتا کہاں بھلا تِری محفل کو چھوڑ کر
میں آپ اپنے پاؤں کی زنجیر ہو گیا
مجھ میں رچی ہوئی تِری خوشبو تھی اس لیے
بڑھ کر عدُو بھی مجھ سے بغلگیر ہو گیا
پھر باندھ لی کسی سے امیدِ وفا قتیلؔ
پھر اک محل ہواؤں میں تعمیر ہو گیا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment