اس سے پہلے کہ دوبارہ یہ اٹھائی جائے
لاش کمرے میں نہیں دل میں چھپائی جائے
جاگنے والے اگر خواب نہيں دیکھتے ہیں
سونے والوں پہ تو قدغن نہ لگائی جائے
خوبصورت ہو مگر اتنے حسیں تھوڑی ہو
روز بچوں کو سناتا ہوں کہانی کوئی
روز کہتے ہیں پَری سامنے لائی جائے
آج کمرے میں خدا بھی ہے خدائی بھی ہے
ایک دنیا ہے مگر کس کو دِکھائی جائے
یہ بھی تصویر مکمل سی ہے لیکن اس میں
خامشی توڑ کے آواز بنائی جائے
تیرا دل بھی کسی دریا کی طرح تھوڑی ہے
ریت پر ناؤ بھلا کیسے چلائی جائے
بھوک سے مرتے ہوئے بچے پکارے عامیؔ
اب یہاں خواب نہيں، فصل اگائی جائے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment