Friday 23 September 2016

اس سے پہلے کہ دوبارہ یہ اٹھائی جائے

اس سے پہلے کہ دوبارہ یہ اٹھائی جائے
لاش کمرے میں نہیں دل میں چھپائی جائے
جاگنے والے اگر خواب نہيں دیکھتے ہیں 
سونے والوں پہ تو قدغن نہ لگائی جائے
خوبصورت ہو مگر اتنے حسیں تھوڑی ہو 
تم پہ ہر چیز بنا سوچے لٹائی جائے
روز بچوں کو سناتا ہوں کہانی کوئی
روز کہتے ہیں پَری سامنے لائی جائے
آج کمرے میں خدا بھی ہے خدائی بھی ہے 
ایک دنیا ہے مگر کس کو دِکھائی جائے
یہ بھی تصویر مکمل سی ہے لیکن اس میں 
خامشی توڑ کے آواز بنائی جائے
تیرا دل بھی کسی دریا کی طرح تھوڑی ہے 
ریت پر ناؤ بھلا کیسے چلائی جائے
بھوک سے مرتے ہوئے بچے پکارے عامیؔ 
اب یہاں خواب نہيں، فصل اگائی جائے

عمران عامی

No comments:

Post a Comment