سنو زندگی
ہاتھ تھامو مِرا
مجھ کو اس راہِ پُرخار سے دور تم لے چلو
اس جگہ
میں جہاں چند لمحے سہی، جی سکوں
کہ یہاں یاد کے سائے گہرے ہیں اتنے
ہر قدم پر گئے وقت کے تذکرے
جن سے ٹکرا کے میں گرچہ گِرتا نہیں
لڑکھڑاتا تو ہوں
اور یہ لڑکھڑاہٹ اذیت بھری ایک سچائی ہے
جس میں گرنے سنبھلنے کی اس مختصر جنگ میں
جیت جاتا ہوں میں
ہار جاتا ہے دل
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment