زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی
لگتی ہے زندگی بھی مصیبت کبھی کبھی
پہلو میں جاگتی ہے محبت کبھی کبھی
آتی ہے ہاتھ درد کی دولت کبھی کبھی
اب تک تِرے بغیر میں زندہ ہوں کس طرح
اک پَل کا جو وصال تھا ان ماہ و سال میں
دیتا ہے ہجر میں بھی رفاقت کبھی کبھی
چھیڑے وفا کا گیت کوئی نغمہ ساز جب
خود سے بھی ہونے لگتی ہے وحشت کبھی کبھی
اک رات ہجر کی ہے مسلسل ہمارے ساتھ
تم پر گزرتی ہو گی قیامت کبھی کبھی
سُلگی ہے تیری یاد میں یہ روح رات دن
دینے لگی ہے لَو یہ رفاقت کبھی کبھی
دنیا کے واسطے جو بہت بے شعور تھا
اس سے ملی ہے عشق کو وقعت کبھی کبھی
مجھ کو تِری جفا کا تو شکوہ نہیں، مگر
آتی ہے یوں ہی لب پہ شکایت کبھی کبھی
میں درد سے نجات کی طالب نہیں مگر
شاہینؔ کم ہو تھوڑی سی شِدت کبھی کبھی
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment