Monday 19 September 2016

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچہ سے
الٰہی! راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو
علاج کیا کریں حکماء تپِ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو
نظیرؔ! اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment