تلخیاں اور بے بسی ویرانیاں
چار جانب ہیں عجب حیرانیاں
پیاس جب باقی نہیں چشمے ہیں کیوں
کیا کروں دریا کی اب طغیانیاں
روح سے محروم ہے اب یہ بدن
پھول، خوشبو، وہ سفر اور وہ نگر
خواب میں آنکھوں کی بس حیرانیاں
ساتھ ہی رہتی ہے یادوں کی مہک
کون بھولے دل کی یہ نادانیاں
ڈال کر مشکل میں خود کو آج پھر
ڈھونڈنے نکلی ہوں کچھ آسانیاں
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment