Monday 19 September 2016

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

تنگ آتے بھی نہیں کشمکشِ دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ
شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر
اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ
نخلِ ہستی نظر آئے گا، کبھی نخلِ صلیب
زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ
ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز
یہی بے رنگ سی دنیا، یہی بے مہر سے لوگ
مطمئن رہتے ہیں طوفانِ مصائب میں کبھی
ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ
اے زمیں! آج بھی ذرے ہیں تِرے مہر تراش
اے فلک آج بھی لڑتے ہیں تِرے قہر سے لوگ
صرف محرومئ فرہاد کا کیا ذکر سحرؔ
بیستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ

سحر انصاری

No comments:

Post a Comment