Monday 26 September 2016

کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات

کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات
دل کے ویرانے میں شہرِ لب و رخسار کی بات
رات جب ڈھلتی ہے، کیا جانے بکھرنا کیا ہے
وہ نہ سمجھی، تِری زلفوں کے گرفتار کی بات
اے شکستِ درِ زِنداں! یہ نظر آتا ہے کی بات
اب کے شاید نہ کریں ہم رسن و دار کی بات
وہ کڑی دھوپ ہے کانٹوں کی زباں سوکھ گئی
ہم یہاں کس سے کریں سایۂ دیوار کی بات
اے صبا! تُو نے تو اس شوخ کو دیکھا ہو گا
بیٹھ کچھ دیر،۔۔ کریں لذتِ دیدار کی بات

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment