کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات
دل کے ویرانے میں شہرِ لب و رخسار کی بات
رات جب ڈھلتی ہے، کیا جانے بکھرنا کیا ہے
وہ نہ سمجھی، تِری زلفوں کے گرفتار کی بات
اے شکستِ درِ زِنداں! یہ نظر آتا ہے کی بات
وہ کڑی دھوپ ہے کانٹوں کی زباں سوکھ گئی
ہم یہاں کس سے کریں سایۂ دیوار کی بات
اے صبا! تُو نے تو اس شوخ کو دیکھا ہو گا
بیٹھ کچھ دیر،۔۔ کریں لذتِ دیدار کی بات
راہی معصوم رضا
No comments:
Post a Comment