آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر
آنکھیں کھلی رہی ہیں مری انتظار میں
آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر
غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے میرے قدم
میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر
ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہگار دیکھ کر
بے حسی بھی وقت مدد دیکھ لی عدؔیم
کترا گیا ہے یار کو بھی یار دیکھ کر
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment