بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر رہگزر میں رہ گئی
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
آ رہی ہے اب بھی دروازے سے ان ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی
اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس زرا سی برف ہر سوکھے شجر میں رہ گئی
رات دریا میں پھر اک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی
رات بھر ہوتا رہا ہے کن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی
لوٹ کر آۓ نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدؔیم
کیا کمی میری صداۓ بے اثر میں رہ گئی
دل کھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیمؔ
جانے کیا شے اسکی گلیوں کے سفر میں رہ گئی
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment