Tuesday, 20 September 2016

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا
جلتا ہوا چراغ مِری رہ گزر کا تھا
ہم جب سفر پہ نکلے تھے تاروں کی چھانو تھی
پھر اپنے ہم رکاب اجالا سحر کا تھا
ساحل کی گیلی ریت نے بخشا تھا پیرہن
جیسے سمندروں کا سفر چشمِ تر کا تھا
چہرے پہ اڑتی گرد تھی بالوں میں راکھ تھی
شاید وہ ہم سفر مِرے اجڑے نگر کا تھا
کیا چیختی ہواوٴں سے احوال پوچھتا
سایہ ہی یادگار مِرے ہم سفر کا تھا
یکسانیت تھی کتنی ہمارے وجود میں
اپنا جو حال تھا وہی عالم بھنور کا تھا
وہ کون تھا جو لے کے مجھے گھر سے چل پڑا
صورت خضر کی تھی نہ وہ چہرہ خضر کا تھا
دہلیز پار کر نہ سکے اور لوٹ آئے
شاید مسافروں کو خطر بام و در کا تھا
کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا
میں اس گلی میں کیسے گزرتا جھکا کے سر
آخر کو یہ معاملہ بھی سنگ و سر کا تھا
لوگوں نے خود ہی کاٹ دیئے راستوں کے پیڑ
اخترؔ بدلتی رُت میں یہ حاصل نظر کا تھا

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment