چاک کرتے ہیں گرِیباں اس فراوانی سے ہم
روز خلعت پاتے ہیں دربارِ عریانی سے ہم
منتخب کرتے ہیں میدانِ شکست اپنے لیے
خاک پر گِرتے ہیں لیکن اوجِ سلطانی پہ ہم
ہاں میاں! دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ
ہم زمینِ قتل گِہ پر چلتے ہیں سینے کے بَل
جادۂ شمشیر سر کرتے ہیں پیشانی سے ہم
ضعف ہے حد سے زیادہ لیکن اس کے باوجود
زندگی سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں آسانی سے ہم
دل سے باہر آج تک ہم نے قدم رکھا نہیں
دیکھنے میں ظاہراً لگتے ہیں سیلانی سے ہم
دولتِ دنیا کہاں رکھیں، جگہ بھی ہو کہیں
بھر چکے ہیں اپنا گھر بے سازوسامانی سے ہم
عقل والو! خیر جانے دو، نہیں سمجھو گے تم
جس جگہ پہنچے ہیں راہ چاک دامانی سے ہم
کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم، مثلاً جہاں بانی سے ہم
احمد جاوید
No comments:
Post a Comment