خواب اتنے ہیں یہی بیچا کریں
اور کیا اس شہر میں دھندہ کریں
کیا ذرا سی بات کا شکوہ کریں
شکریے سے اس کو شرمندہ کریں
تو کہ ہم سے بھی نہ بولے ایک لفظ
سب کے چہرے ایک جیسے ہیں تو کیا
آپ میرے غم کا اندازہ کریں
خواب ادھر ہے اور حقیقت ہے ادھر
بیچ میں ہم پھنس گئے ہیں کیا کریں
ہر کوئی بیٹھا ہے لفظوں پر سوار
ہم ہی کیوں مفہوم کا پیچھا کریں
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment