Monday 26 September 2016

خواب اتنے ہیں یہی بیچا کریں

خواب اتنے ہیں یہی بیچا کریں
اور کیا اس شہر میں دھندہ کریں
کیا ذرا سی بات کا شکوہ کریں
شکریے سے اس کو شرمندہ کریں
تو کہ ہم سے بھی نہ بولے ایک لفظ
اور ہم سب سے ترا چرچا کریں
سب کے چہرے ایک جیسے ہیں تو کیا
آپ میرے غم کا اندازہ کریں
خواب ادھر ہے اور حقیقت ہے ادھر
بیچ میں ہم پھنس گئے ہیں کیا کریں
ہر کوئی بیٹھا ہے لفظوں پر سوار
ہم ہی کیوں مفہوم کا پیچھا کریں

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment