Saturday, 24 September 2016

خدا مری نظم کیوں پڑھے گا

خدا مِری نظم کیوں پڑھے گا

غنودگی اب غنودہ تر ہے
فلک کے کھیتوں میں خامشی ہے
نئے ستارے اگانے والے کسان کو نیند کی پڑی ہے
ضعیف و بیمار چاند شب کی مہیب وسعت میں کھو چکا ہے
مگر مِری نظم مرنے والوں کا ماجرا ہے

جو گھر سے نکلے تو روشنی کی تلاش میں تھے
پلٹ کے آۓ تو سانس کی لَو بجھی ہوئی تھی
یہ بند بوری میں کیا ہے بھائی
جو گھر کی دہلیز پر پڑی ہے
زمین قبروں سے بھر گئی ہے
حسن! تمہارے تمام کوزے لہو لہو ہیں
عطا! تمہارے تمام چشموں میں لوتھڑے ہیں
یہ قصۂ حور ہے نہ ذکرِ مۓ مقدس
مگس کی قے کا نہ دودھ نہروں کا تذکرہ ہے
نہ اس میں باغِ بہشت میں اڑتے پھرنے والا کوئی کبوتر
نہ کونج کوئی
نہ اس میں منبر، نہ صف بہ صف با وضو نمازی
نہ مسجدوں والی گونج کوئی
اذاں نہیں ہے نہ مصرعۂ عطر دار کوئی
سڑاند ہے اور غبار آلود راستے ہیں
نظر پہ چھاتا، دلوں تک آتا گھنا دھواں ہے
فرشتگیاں کی طرف دھواں کس طرح بڑھے گا
خدا مِری نظم کیوں پڑھے گا

دانیال طریر

No comments:

Post a Comment