دنیا سے تن کو ڈھانپ، قیامت سے جان کو
دو چادریں بہت ہیں تِری آن بان کو
اک میں ہی رہ گیا ہوں کئے سر کو بارِ دوش
کیا پوچھتے ہو بھائی! مِرے خاندان کو
جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے
فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم
اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو
دل میں سے چن کے ہم بھی کوئی غنچہ اے نسیم
بھیجیں گے تیرے ہاتھ کبھی گلستان کو
مشغول ہیں صفائی و توسیعِ دل میں ہم
تنگی نہ اس مکان میں ہو میہمان کو
احمد جاوید
No comments:
Post a Comment